خواجہ سرا میاں بیوی کی کن غلطیوں سے پیدا ہوتے ہیں۔مرد حضرات یہ ویڈیو لازمی دیکھیں
رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں یہ جنس موجود تھی،بعض کے نام بھی ملتے تھے کہ وہ معیت ،نافع ،ابوماریہ الجنّہ اور مابور جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ شرائع اسلام ادا کرتے تھے۔ نمازیں پڑھتے ،جہاد میں شریک ہوتے اور دیگر امور خیر بھی بجا لاتے تھے۔ رسول اللہﷺ ان کے متعلق پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بے ضرر مخلوق ہے۔آدمی ہونے کے باوجود انھیں عورتوں کے معاملات میں چنداں دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے آپ ازواج مطہرات کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن جب آپ کو پتہ چلا کہ انھیں عورتوں کے معاملات میں خاصی دلچسپی ہی نہیں بلکہ یہ لوگ نسوانی معلومات بھی رکھتے ہیں ، تو آپ نے انھیں ازواج مطہرات اور دیگر مسلمان خواتین کے ہاں آنے جانے سے منع فرما دیا، بلکہ انھیں مدینہ بدر کرکے روضہ خاخ، حمرآءالاسد اورنقیع کی طرف آبادی سے دور بھیج دیا ، تاکہ دوسرے لوگ ان کے برے اثرات سے محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری ،المغازی:4234)
رسول اللہﷺ نے عورتوں کو حکم دیا کہ انھیں بے ضرر خیال کرکے اپنے پاس نہ آنے دیں ، بلکہ انھیں گھروں میں داخل ہونے سے روکیں۔ (صحیح بخاری، النکاح:5235)
رابعاً:واضح رہے کہ مخنث بنیادی طور پر مرد ہوتا ہے، لیکن مردی قوت سے محروم ہونے کی وجہ سے عورتوں جیسی چال ڈھال اور اداو گفتار اختیار کیے ہوتا ہے۔ یہ عادات اگر پیدائشی ہیں تو انھیں چھوڑنا ہوگا، اگر پیدائشی نہیں بلکہ تکلف کے ساتھ انھیں اختیار کیا گیا ہے تو رسول اللہﷺ نے اس اختیار پر لعنت فرمائی ہے کہ ‘‘وہ مرد جو عورتوں جیسی چال ڈھال اور وہ عورتیں جو مردوں جیسی وضع قطع اختیار کریں اللہ کے ہاں ملعون ہیں۔’’ (صحیح بخاری ،اللباس:5787)
رسول اللہﷺ کے پاس ایک ایسا مخنث لایا گیا جس نے عورتوں کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ یہ ازخود عورتوں جیسی چال ڈھال پسند کرتا ہے تو آپ نے اسے مدینہ بدر کرکے علاقہ نقیع میں بھیج دیا، جہاں سرکاری اونٹوں کی چراگاہ تھی۔ آپ سے کہا گیا اسے قتل کر دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ‘‘ مجھے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ’’ (ابو داؤد، الادب:4928
خواجہ‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس کی جمع ’خواجگان‘ ہے۔ خواجہ سردار یا آقا کو کہتے ہیں۔ لغت کے مطابق توران میں سادات کا لقب جیسے خواجہ معین الدین۔ اور خواجہ سرا وہ غلام جو نامرد ہو اور گھر میں زنانہ کام کرتا ہو۔ یہ امیروں اور بادشاہوں کے زنانہ محل کی دربانی بھی کرتے ہیں اور زنانے میں آنے جانے کی انھیں اجازت بھی ہوتی ہے۔ ان کو محلّی بھی کہتے ہیں۔
اردو زبان میں اس صنف کو ہیجڑا، کھسرا، زنخا یا خواجہ سرا ء کے ناموں سے جانا جاتا ہے جبکہ عربی میں ان کو مخنث کہا جاتا ہے۔
خواجہ سرا تیسری صنف ہیں۔ اگرچہ خواجہ سراؤں کے جسم مردانہ ہوتے ہیں لیکن اُن کی روش صنف نازک کی طرح ہوتی ہے۔[2] پاکستان میں سرکاری طور پر مردم شماری میں ان کی تعداد الگ شمار کی جاتی ہے، پاکستان کی کل آبادی میں 21744 ہیں،