رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
جس کے ہر قطرے میں خورشید کئی
جس کی ہر بوند مین اک صبح نئی
دور جس صبح درخشاں سے اندھیرا ہوگا
رات کٹ جائے گی گل رنگ سویرا ہوگا
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
اپنی رفتار کو کچھ اور ذرا تیز کرو
اپنے جذبات کو کچھ اور جنوں خیز کرو
ایک دو گام پہ اب منزلِ آزادی ہے
آگ اور خوں کے اُدھر امن کی آبادی ہے
خود بخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی
بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو