خوشیوں کو لوٹ کر یہاں
دیتے ہیں غم نشانیاں
کب تک رہیں گی پیار پر
دنیا کی مہربانیاں
راہ_وفا میں لٹ گئے
بچھڑے دلوں کے قافلے
منزل پہ آ کے اور بھی
بڑھتے رھیں فاصلے
برباد ھو کے رہ گئیں
ارماں بھری جوانیاں
کب تک رھیں گی پیار پر
دنیا کی مہربانیاں
*کتنی ہی زندگانیاں
رسموں پہ ہو گئیں فدا
دو دل ملے تھے پیار سے
دنیا نے کر دئیے جدا
ہوتے رہے یونہی ستم
بنتی رہیں کہانیاں
کب تک رہیں گی پیار پر
دنیا کی مہربانیاں
*جتنےخوشی کے خواب تھے
سب آنسوؤں میں ڈھل گئے
گلشن میں رہ گیا ہے کیا
تنکے تھے چار جل گئے
تھا میرا آشیاں کہاں
ملتی نہیں نشانیاں
کب تک رہیں گی پیار پر
دنیا کی مہربانیاں
*گیت سے لیا گیا کلام
فلم: شیریں فرہاد (1956)
شاعر: تنویر نقوی
گلوکارہ: آشا بھوسلے، ہیمانت کمار