لاہور (نمائندہ خصوصی) وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی میں آج ہونے والا اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا ہے جبکہ اراکین اسمبلی کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب آج ہونا تھا، یہ عہدہ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد یکم اپریل سے خالی ہے۔
پنجاب اسمبلی کے قائد ایوان کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے امیدوار اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی ہیں جبکہ اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز میدان میں اترے ہیں۔
وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس اس وقت ہنگامہ آرائی کے باعث تاخیر کا شکار ہے جو کہ ساڑھے 11 بجے شروع ہونا تھا، اجلاس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کریں گے۔
اجلاس کے باقاعدہ آغاز سے قبل تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی ایوان میں لوٹے کر پہنچ گئے اور منحرف اراکین کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔
حکومتی اراکین اسمبلی نے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی نشست کا گھیراؤ کرلیا، اس دوران ان کی جانب لوٹے بھی اچھالے گئے اور ان کے بال بھی نوچے گئے، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کو سخت سیکیورٹی میں ایوان سے باہر لے جایا گیا۔
دریں اثنا حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان ہاتھا پائی بھی شروع ہوگئی، صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایس ایس پی آپریشنز کے ہمراہ پنجاب پولیس کی بھاری نفری پنجاب اسمبلی پہنچ گئی۔
اس دوران اسمبلی کے اندر موجود پرویز الہٰی نے مسلم لیگ (ن) پر پولیس کو ایوان کے اندر لانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پولیس ایوان میں آئی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کون ہوتی ہے جو اسمبلی میں داخل ہو؟
مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے کہا ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) ہمارے سامنے پیش ہوں اور انہیں ایک ماہ کی سزا دی جائے گی۔
شدید ہنگامہ آرائی کے بعد ڈپٹی اسپیکر اسمبلی سے روانہ ہوگئے۔
دریں اثنا ترجمان پنجاب اسمبلی کی جانب سے کہا گیا کہ جب تک ووٹنگ نہیں ہو گی اجلاس ملتوی نہیں ہو گا۔