شعر و ادب کا جمیل "منور جمیل" شاعری کا روشن حوالہ، ریڈیو پاکستان بہاؤل پور کے پہلے نیوز رِیڈر، نخلستان ادب کے مُدیر، ظہور نظر کی فکری اساس کے علمبردا ر طویل علالت کے بعد وفات پا گئے ہیں۔ اُن کے بغیر بہاؤل پور کی ادبی فضاء آج سوگوار ہے۔
طویل علالت اور کسی دئیے گئے غم سے لڑتے لڑتے 16 جنوری 2022 کو 75 سال کی عمر میں مشہور شاعر، دانش ور، میزبان، نقاد اور منتظم کے طور پر شہرت سمیٹنے والے منور جمیل خالقِ حقیقی سےجا ملے۔ آپ کو اپنی خدمات کے حوالے سے سفیرِ ادب کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اُن کی دو کتابیں دیکھو یہ میرے زخم ہیں اور کہو کس حال میں ہو تم؟ اُن کی وارثت کے اَنمِٹ نقوش ہمارے درمیان رَہ گئے ہیں۔
1947میں ملتان میں جنم لینے والے منور جمیل 1960 میں بہاؤل پور میں مستقل رہائش پذیر ہوئے اور یہیں کے ہو کر رَہ گئے۔ آپ نے 1972میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ ابتداء ہی سے ترقی پسند تحریک کے جید شعرائے کرم ظہور نظر، سید آل احمد، حیات میرٹھی، مجید تمنا،سہیل اختر کی صحبت نے اُنہیں نکھار دیا۔
منور جمیل قریشی علم و قلم کی ضرمت کا استعارہ تھے اور بطور شاعر، دانش ور، کمپیئر، نقاد اور بطور منتظم آپ کی شہرت چار دانگ عالم تھی۔ آپ تعلق نبھانے اور دیر تک قائم رکھنے والے شخص تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ادبی سفر کے ابتدائی دور کے دوست آج بھی اُن کے بہترین دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جن میں مشہور ادیب اور صحافی سید آصف جاہ جعفری، ماہر تعلیم اسلم ادیب، لکھاری و شاعر نواز کاوِش، عمران اِقبال اور بہت سے دیگر ادبی، سیاسی، سماجی ، صحافتی شخصیات شامل ہیں۔
آپ نے مشہور شاعرہ نوشی گیلانی کو بھی ادبی حلقوں میں متعارف کروایا تاہم آپ دونوں کے اِختلااف کی خبریں گردِش میں رہیں۔ آپ نے بہاؤل پور میں قلم قبیلہ اور ماہنامہ سائبان کی بنیاد رکھی۔ 1985 میں عالمی ظہور نظر کانفرنس اور عالمی مشاعروں کا انعقاد آپ کا ہی خاصہ تھا۔ 1990 میں آپ ہندوستان کے متعدد شہروں میں ہونے والے مشاعروں میں شریک ہوئے اور خوب داد سمیٹی۔
شہرِ علم و نور، دارلسُرور بہاؤل پور انہیں ہمیشہ یاد رکھے گا۔