Afsana ayk larki ki zindgi ka | افسانہ ایک لڑکی کی زندگی کا ۔شادی کا انتظار کرتے کرتے یہ کیا کردیا
دریچے سے چھن چھن کر آتی چاندنی کی ٹھنڈی روشنی کمرے کے نیم تاریک ماحول میں ایک گہری اداسی کا تاثر پیدا کر رہی تھی۔کھڑکی کے ساتھ کرسی اور اس پر دراز اس کا خاموش وجود کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا اس کی افسردگی کو نمایاں کر رہا تھا۔
یہ کوئی آج کی بات نہیں تھی یہ گذشتہ کئی سالوں سے اس کے ساتھ ہوتا آرہا تھا۔،ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی اسے قربانی کے جانور کی طرح سجا کر اور ہدایات دے کر ایسے ناقدرے انسانوں کے سامنے پیش کیا گیا جو اپنے بے لاگ تبصروں سے اسے کند چھری سے ذبح کر رہے تھے اور وہ خالی ذہن اور بے جان روح کی طرح ان کے درمیان بیٹھی آپنی ذات کی نفی ہوتے دیکھ رہی تھی۔
وہ خواتین کبھی بسکٹوں اور کبابوں پر ہاتھ صاف کرتیں اور کبھی سموسہ اٹھا کر پلیٹ میں ڈالٹیں اور سوال کرتیں !
""آپ کی بیٹی کی عمر کتنی ہے؟دیکھنے میں تو 26،27 سال کی لگ رہی ہے؟
ٹھنڈی پیپسی کے گھونٹ بھرتیں اور کہتیں !
"رنگ کچھ دبتا سا ہے کم ہے۔میرے بیٹے کی پہلی ڈیمانڈ ہی یہی ہے کہ لڑکی خوبصورت ہونی چاہیےمیرا بیٹا ماشاء اللہ بہت گورا ہے۔ ویسے تو سب صورتیں اللہ نے بنائیں ہیں ""
تبصرہ کے ساتھ اپنی بات کا بھرم رکھنے کے لئے لوگ کیسے اللہ کا سہارا لیتے ہیں
وہ بس سوچ کر رہ گئی۔
اور ہر بار کی طرح پھانسی کی سزا کے منتظر قیدی کی طرح ثمرین کے گھر والے انتظار کی سولی پر لٹکا دیے گئے۔
گھر میں سب کی نظروں سے بچنے کے لئے اور اس آزمائش سے گذرنے کے بعد وہ کمرے میں بند ہو جاتی اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیتی !
کس بات کی کمی ہے مجھ میں ؟
وہ آئینے سے سوال کرتی۔میرے ہاتھ خالی تو نہیں ہیں۔ تعلیم کا ہنر اور گھر داری کا سلیقہ ہے۔
اس خالق کائنات کے تمام فرائض ادا کرتی ہوں۔کیا کم صورت ہونا میرا جرم ہے ؟
اسے شاید دنیا کی نظروں سے اپنے آپ کو دیکھنا نہیں آتا تھا تبھی آئینہ اسے بہلا دیتا اور وہ پھر سے خواب بننے لگتی اور پھر نئی آزمائش کے لئے تیار ہو جاتی تھی۔
کبھی وہ سوچتی اس کے ذہن میں بھی تو سوال اٹھتے ہیں۔کیا کبھی اسے یہ حق ملے گا کہ وہ بھی ان کے جواب مانگ سکےان لوگوں سے جو اسے مجرم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کر کے نا کردہ جرم اس کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ بھی کبھی ان سے پوچھے !
"'جب آپ کے سامنے آپ کی بیٹی کی ذات کی خامیاں بتائی جاتیں ہیں تو کبھی آپ نے بھی سوچا یہ کہ ہم نے بھی اس جرم کا ارتکاب کیا ہے ؟
کسی کی آنکھوں کے خواب توڑے ہیں اس کی ہنسی چھین کر آنسوؤں کے سمندر میں دھکیل دیا ہے
مگر ہر بار وہ سوچ کر رہ جاتی۔
کئی دنوں سے ثمرین کو گھر والوں کے روہے میں پر اسراریت محسوس ہو رہی تھی۔ آپس میں بات چیت کر رہے ہوتے اور اسے دیکھتے تو خاموش ہو جاتے۔ وہ سمجھ نہ پاتی۔
اور کچھ دنوں سے وہ محسوس کر رہی تھی کہ آذر اس کا بھائی کا رویہ بھی کچھ بدلا ہوا ہے۔ وہ اس سے پہلے کی طرح مذاق نہیں کرتا تھا۔وہ ڈرائنگ روم میں آتی تو وہ اٹھ کر چلا جاتا تھا۔وہ کوئی بات کرنے کی کوشش کرتی تو مختصر جواب دے کر خاموش ہو جاتا تھا۔وہ اس کے روہیے کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
وہ بہت حساس ہو گئی تھی ہر ایک کے بارے میں سوچ کر گھنٹوں اداس رہتی اور کبھی کبھی آنسوؤں سے رو کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی تھی مگر وہ اس ساری صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھی۔
جانے اب زندگی اس کے لئے اور کیا امتحان لے کر آنے والی تھی۔؟
اس دن کچن میں جاتے ہوئے امی کے کمرے سے آنے والی آوازوں نے اسے معاملے کی تہہ تک پہنچا دیا
کمرے میں امی ابو کے علاوہ بڑے بھائی اور بھابھی بھی موجود تھے۔وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ انہیں لڑکے والوں کی بات مان لینی چاہیے۔اس کے والد ادلے بدلے رشتے کے حق میں نہیں تھے
وہ اس شرط کے ساتھ ثمرین کا رشتہ قبول کرنے کو تیار تھے کہ ان کی قبول صورت بیٹی کو اعلی تعلیم یافتہ آزر سے بیاہ دیا جائے
اس انکشاف نے اسے لرزا دیا ۔ وہ اس قدر کم مایہ تھی کہ اس کے خوبرو بھائی کو اس کے لئے قربانی دینی پڑے اور اپنے خوابوں کو چکنا چور کرنا پڑے۔آذر اپنی کولیگ کےرشتے کے لئے ماں باپ سے بات کر چکا تھا اور اب وہی گھر والے اسے قربانی دینے کے لئے مجبور کر رہے تھے۔
اپنے کمرے میں رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھے اور اپنی سوچوں کو کاغذ کے مسودے پر منتقل کرتے ہوئے وہ بہت پر سکوں تھی۔
اس نے کچھ سوال اٹھائے تھے !
مجبوری کے رشتے میں بندھے یہ بندھن کب دل سے نبھائے جا سکتے ہیں؟
کیا اب رشتوں میں اب محبت اور اپنائیت کی بجائےصرف "سودے " ہوا کریں گے ؟
"اپنے مفاد کے سودے، کسی کے خواب توڑنے کے سودے، ان نازک کانچ کی مانند بیٹیوں کے
جذبات کے سودے "
خدارا ! کسی کی بیٹی کی آنکھوں میں بسے خوابوں کو رنگوں سے بھریں کل کوئی آپ کی بیٹی کی انکھوں میں بسے خوابوں کی تکمیل کرے گا پھر شاید یہ معاشرہ ایک اچھی سوچ اور ایک نئی راہ پر
گامزن ہو سکے۔یہ آپ کا اولین فرض ہے"
ایک فیصلہ کرنے کے بعد اب وہ پر سکون تھی اسے یہ سودا منظور نہیں تھا شاید اس کی قربانی اور مثال سے معا شرے کے افراد کے روہیے اور ذہن بدل جائیں
اپنی اس تحریر کو اخبار کے ادبی ایڈیشن کے پتے پر ارسال کر کے اس نے موت کی آغوش میں پناہ لے لی۔
افسانہ نگار ۔۔۔ ارم فاطمہ