وہ ہیں آمادہ وفاؤں کا شجر کاٹنے کو
آن کے ہاتھوں میں چھری ہے میرا سر کاٹنے کو
تم میرے ساتھ نہیں ہو تو کوئی لطف نہیں
یوں تو کٹ جاتے ہیں یہ شام و سحر ، کاٹنے کو
بھیس بدلے ہوئے رہبر کا وہ رہزن ہی سہی
چاہیے ساتھ کوئی راہ سفر کاٹنے کو
جوشِ وحشت میں ہر اِک شے ہوئی مجھ سے بیزار
دوڑتا ہے میرا اجڑا ہوا گھر کاٹنے کو
کون کہتا ہے موجوں نے تھپیڑے مارے
ناؤ چکرائی تھی دریا میں بھنور کاٹنے کو
مشاعرہ دہلی خواجہ ہال سن 1999
کلام حضرت الشیخ پیر سید نصیر الدین نصیر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ گولڑہ شریف
.اپ کی دعاؤں کاطالب سید شاہد محی الدین بخاری